بیٹی ایک رحمت
بیٹی کی پیدائش، بیٹی کا ہمارے آنگن میں پروان چڑھنا، بیٹی کا جوان ہو کر ایک عورت/خاتون کے رُوپ میں ڈھلنا، یہ سب کچھ اپنے گھر اپنی نگرانی میں، لمحہ لمحہ اپنے ملکیتی احساس کے ساتھ ہوتے ہوئے دیکھنا ایک مکمّل، خوبصورت، بصیرت افروز پیکیج ہے۔ خوب زیادہ جانکاری ملتی ہے کہ عورت کیا ہے، اس کی نسوانیت کے تقاضے کیا ہیں، اس کی نفسیات کیا ہے، اس کی نزاکتیں کیا کیا ہیں۔ یہی عورت ذات جب ہماری ماں تھی، بہن تھی، یا زوجہ بن کر رفیقِ حیات بنی تو کس مقام پر اِس کو سمجھنے میں کیا کیسی غلطی ہوئی، اور کیوں ہوئی؟
یہ کن معاملات میں کیوں حسّاس ہے، اس کی جذباتی حدّت و حلاوت کیا شے ہے۔ اس کی صفات، اِس کے نقص، اِس کے خوف، اِس کی دلیری، اِس کا تبسّم، اِس کی اداسی کیا زاویے رکھتی ہے؟ اِس کی سب خوبصورتیاں، اِس کی مشقّتیں کس نوعیت کی ہیں؟ ــــ اگرچہ ایسی تفہیم کا پیکیج بیشتر مڈل اور لوئر مڈل کلاس طبقے کی سطحِ زندگی میں ہی میسّر آ سکتا ہے کہ زندگی اپنے اسرار و رُموز اسی درجہِ حیات پر اتر کر بیان کرتی اور فکر و شعور کی اشرفیاں بانٹتی ہے ۔۔۔
سوچتا ہوں، حکیم الامّت بلاوجہ نہیں پکار اُٹھے تھے کہ 'وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ' ۔۔۔ یہاں تک کہہ گئے کہ' اِسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ درُوں' ۔۔۔ پھر کہا، 'شرف میں بڑھ کے ثریّا سے مُشتِ خاک اِس کی ــــ کہ ہر شرف ہے اِس دُرج کا دُرِ مکنوں۔'
مبارک ہیں وہ سب گھرانے جہاں بیٹی نے آنکھ کھولی، بیٹی گود میں آئی، بیٹی پروان چڑھی، باپ نے بیٹی سے، بیٹی نے باپ سے محبت کی۔ بیٹی نے بہن بن کر مان دیا ہو، اور بھائی کو اپنی بہن کے حق میں غصّہ آیا ہو۔ وہ بیٹی تو لائقِ صد افتخار ہے جس کی رِدا کی قسم کھائی جا سکے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
Comments
Post a Comment