صحت کا خیال کیسے رکھیں
صحت اور خوراک
بچوں اور نوجوانوں کے چہروں پر کم خوراکی اور پانی کم پینے کی وجہ سے چھائی ہوئی بے رونقی دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ پوری کلاس میں بمشکل ایک دو بچے یا نوجوان نظر آتے ہیں جن کے چہرے پر بچپن یا جوانی کی تروتازگی نظر آتی ہے۔ باقی سب توانائی کی عمر کے اس دور میں مرجھائے نظر آتے ہیں۔
ہمارے ہاں متوازن خوراک کا شعور خطرناک حد تک مفقود ہے۔ ضرورت کے بقدر پانی تک پینے پر کوئی دھیان نہیں۔
وسائل کی کمی تو ایک مجبوری ہے مگر جنھیں وسائل میسر ہیں وہ بھی صحت کی طرف سے بے خبر ہیں۔
ایک طرف تو فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ نے کھانے پینے کی عادات کو بگاڑ دیا ہے جس کی وجہ سے صحت مند خوراک کی طرف بچے راغب نہیں ہوتے، دوسرے ہمارے مشرقی کھانوں سے متعلق بھی بہت خوش فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ دودھ، گندم کی روٹی کے بارے میں ضرورت سے زیادہ خوش گمانی پائی جاتی ہے حالانکہ یہ دونوں خوراک کی ضرورت پورا نہیں کرتے۔ دودھ میں چکنائی اور گندم میں نشاستہ موٹا کرنے کا سبب ہیں۔ یہی حال چاول کا ہے ۔ کیلشیئم بھی دودھ سے بہت کم مقدار میں ملتا ہے۔ سبزی جس طرح تیل میں تل بھون کر پکائی جاتی ہے اپنی افادیت کھو دیتی ہے۔ ہماری یہ خوراکیں پیٹ بھرنے کا کام کرتی ہیں صحت کے لیے مفید نہیں۔
یہی وجہ ہے ہمارے ہاں لوگ پینتیس چالیس سال کی عمر کے بعد کم زوری محسوس کرتے ہیں۔ بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں خصوصا خواتین کی صحت بہت جلد خراب ہو جاتی ہے۔
پھل ایک تو پہلے ہی غریب کی پہنچ سے دور ہیں لیکن جو استطاعت رکھتے ہیں وہ بھی دو چار پھل اپنی پسند کے کھاتے ہیں باقی کسی کو منہ نہیں لگاتے۔
میں کوئی ماہر خوراکیات نہیں۔ چند مشاہدات شیئر کرنا مقصود ہے جو شاید مفید ہو سکیں۔
پانی دو سے چار لیٹر جسمانی مشقت کی روٹین کے لحاظ سے روزانہ پینا چاہیے۔ اس کے لیے ایک بوتل ہم راہ رہنی چاہیے۔ تھوڑا تھوڑا پیتے رہنا چاہیے۔ اس میں او آر ایس ملا لیں۔ اب ذائقہ دار او آر ایس بھی دستیاب ہیں تو پینے میں رغبت زیادہ ہوگی۔ کولڈ ڈرنکس سے گوشت کھانے کے علاوہ پرہیز ہی کرنا چاہیے۔ یہ معدے اور آنتوں کی دیواروں کے لیے نقصان دہ بتائے جاتے ہیں۔ جسم میں پانی کی مقدار کافی ہے یا نہیں اس کی فوری جانچ کا ایک طریقہ ہونٹ ہیں۔ پانی کی کمی کا اثر ہونٹوں پر سب سے پہلے ظاہر ہوتا ہے۔ ہونٹ خشک ہو جاتے ہیں، ان پر جھریاں پڑ جاتی ہیں، زیادہ کمی ہو جایے تو پھٹ جاتے ہیں۔ جب تک ہونٹ تروتازہ محسوس نہ ہوں جان لیجیے کہ جسم میں پانی کم ہے۔ اگر پیاس نہیں لگ رہی تو یہ عادت کی خرابی ہے۔
پانی کی کمی سے آنکھوں کی نمی بھی کم ہو جاتی ہیں۔ آنکھیں بے رونق لگتی ہیں۔ پانی پورا ہو تو آنکھیں چمکتی ہیں۔ رخسار بھرے بھرے محسوس ہوتے ہیں۔گالوں کا حال سیب جیسا ہوتا ہے۔ رس بھرا ہو تو اس کی جلد چمکتی ہے رس کم ہو جایے تو مرجھا جاتا ہے، جھریاں پڑ جاتی ہیں۔
سبزی کھانے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ کچی کھائی جائے اور کچی سبزی کو قابل قبول بنانے کے لیے سبزی کے سلاد کی بہت خوش ذائقہ اقسام و تراکیب دستیاب ہو چکی ہیں۔ انٹر نیٹ سے اپنی پسند کی ترکیب ڈھونڈیے اور دن میں کم از کم ایک کھانا مختلف سبزیوں کا سلاد بنا کر کھائیے۔ مجھے شہد مایونیز اور شہد ملا سبزی کا سلاد پسند ہے اسی طرح مختلف پھل کھانے مشکل ہوں تو ان کو بھی سلاد بنا کر کھائیں یا جوس نکال کر پیئیں۔ اس کے بھی بے شمار نسخے موجود ہیں۔
روٹی دن بھر میں ایک کافی ہے۔ چاول بھی ایک بار کافی ہیں۔ فربہ لوگ یہ چیزیں اس سے بھی کم لیں۔ ناشتے میں پراٹھا کھانا یقین مانیے کہ فرض نہیں ہے۔ ناشتے میں پھل کھانا بہترین ہے۔ صبح کا ناشتہ دن بھر کی توانائی برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ بریڈ کھائیں تو براؤن بریڈ زیادہ بہتر ہے۔ تیل اور چکنائی کا استعمال بہت کم کرنا چاہیے۔
گوشت سے موٹاپا کا ہمارا ہاں پایا جانے والا اندازہ درست نہیں۔ موٹاپا روٹی اور چاول کھانے سے زیادہ ہوتا ہے۔
ائیڈیل تو یہ ہے کہ کسی ڈائیٹسٹ سے اپنی عمر اور صحت کے حساب سے ڈائیٹ پلان بنا کر خوراک لی جائے۔ تاہم معلومات کی فراوانی ہے۔ آپ اس بارے میں فکر مند ہوں تو حسب ضرورت رہنمائی مل جاتی ہے۔
ایک بات یہ بھی اہم ہے کہ خوراک میں غذائیت کا جو حال ہے، جس طرح دودھ سبزی پھل تیار ہوتے ہیں سب کو معلوم ہے، اس وجہ سے سپلیمنٹ لینا ایک مجبوری ہے اور ڈاکٹر کے مشورے سے لیے جائیں تو کوئی لازمی نقصان ان کا علم میں نہیں۔ یہ لینے چاہییں ۔ بچوں کی خوراک میں ان کا شامل ہونا ضروری ہے۔ اس کے مثبت اثرات ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
مجھے اتنا ہی علم ہے اس میں بھی کچھ قابل اصلاح تو ضرور مطلع کیجیے۔
Comments
Post a Comment